| سوتے ہیں دن میں شب کو ہیں بیدار آجکل | 
| بے زار بیٹھے ہیں پسِ دیوار آجکل | 
| گھمبیر ہے حقیقتِ بازار آجکل | 
| چھل ہے وفا، بناوٹی ہیں یار آجکل | 
| الٹی دشا میں بہتا ہے سنسار آجکل | 
| ہر شخص سادھو، ہر کوئی فنکار آجکل | 
| دنیا سے لڑنا تھا کہ عجب کھیل ہو گیا | 
| ہیں خوار دل سے، خود سے ہیں دو چار آجکل | 
| ڈھلتی ہے شب یونہی، یونہی یہ دن گزرتا ہے | 
| کچھ بولتے، نہ کہتے ہیں اشعار آجکل | 
| بازارِ التفات میں اشیاۓ سنگ ہیں | 
| پیشہ فریبی، جھوٹے ہیں بیوپار آجکل | 
| کہنے کو کیا ہے کچھ نہیں ہے عشق و عاشقی | 
| پیسے کے بیلی، پیسے کے دلدار آجکل | 
| تکلیف ہے نہ عیش، خوشی ہے نہ کوئی رنج | 
| ہے کیا عجیب حالِ طلبگار آجکل | 
| آتے ہیں کچھ خیال کہ میں بھاگ اٹھتا ہوں | 
| ہے تلخی میں حیات مزے دار آجکل | 
| دستِ رقیب میں بھلا آتا سکون کیا | 
| الجھی سی ہے وہ کاکلِ خم دار آجکل | 
| اس نقشِ پا کے صدقے، چلا پیچھے پیچھے میں | 
| سوچوں کدھر کو جاتے ہیں سرکار آجکل | 
| لیکن، اگر مگر، ادھر ادھر ، کیسے، کیوں، کہاں | 
| کچھ وسوسوں کی رہتی ہے بھرمار آجکل | 
| بزمِ رقیب تھی وہ کہ تھا مسخروں کا جُھنڈ | 
| ہیں ایرے غیرے صاحبِ گفتار آجکل | 
| حالات رخ بدل گئے خوشیاں بھسم ہوئیں | 
| آزار دیکھ پلکیں ہیں ناچار آجکل | 
| کچھ طور جینے کا ہو تو اے زیبؔ جی لیں ہم | 
| ملتے ہیں ہاتھ پھرتے ہیں بے کار آجکل | 
 
    
معلومات