کون یاں حق میں مرے آج صفائی دے گا
دے بھی دی اس نے مگر دل نہ رہائی دے گا
ایسا سایہ ہوں سرِ شام جو گھر سے نکلے
خون جب آنکھ سے ٹپکا تو دکھائی دے گا
شور اتنا ہے کہ اب کان پھٹے جاتے ہیں
جو میں سنتا ہوں انہیں کب وہ سنائی دے گا
اپنا قاتل ہوں مجھے سخت سزا دی جائے
کون قاتل ہے جو خود پہ ہی گواہی دے گا
صاف دکھتا ہے مگر ٹھوکریں پھر بھی شاہدؔ
یہ نہ سوچا تھا کہ کچھ بھی نہ سجھائی دے گا

0
41