خوشی کی گھڑی ہے |
عجب اک سماں ہے |
بچہ کوئی بوڑھا جواں ہے وہاں ہے |
خوشی ان کے چہرے سے بالکل عیاں ہے |
فلک پر لگی ہیں سبھی کی نگاہیں |
مرا سنگ بھی چاہیں اور میں پریشاں |
انہیں کیا بتاوں؟ |
فلک میں نہیں ہے |
زمیں پر کہیں ہے وہ رشکِ قمر تو |
مری عید جس سے |
مری شام جس سے |
مری ہر خوشی جو مری زندگی ہے |
وہی جب نہیں ہے تو کیا زندگی ہے |
کہ یہ زندگی تو |
شروع ہے اسی سے اسی پر ختم بھی |
غمِ زندگی یہ فراقِ صنم بھی |
بہت سہہ چکا میں ستم در ستم بھی |
ستم سہہ نہ پاوں |
یہ غم سہہ نہ پاوں |
میں اب رہ نہ پاوں |
مگر کہہ نہ پاوں کہ رک رک سی جاتی ہے سینے میں دھڑکن |
ہے بہنے کو بیتاب یہ چشمِ نم بھی |
مگر اس سے پہلے یہ بند ٹوٹ جائے |
ان آنکھوں کا پانی بھلا کیسے روکوں |
میں کیسے سمیٹوں یہ انمول دولت |
مری چشمِ نم کے کنارے کے موتی |
چھپاتے چھپاتے |
بچاتے بچاتے |
نہ چاہتے بھی میرے یہ دو چار قطرے کہیں گر پڑے تو |
کوئی دیکھ لے تو |
اگر پوچھ لے تو میں کیا نام دوں گا بیتابی کو اپنی |
یہ سب بے خبر ہیں مرے حالِ دل سے |
چھپاوں تو کس سے |
بتاوں تو کس کو |
میں کس کس سے بولوں کہ ایسی گھڑی میں |
مبارک نہ دے کوئی گلے نا لگائے |
کہ جب ہاتھ دل سے جدا ہو نہ پائے |
تو بزمی جی ایسے میں خود کو سمبھالے کہ رسمیں نبھائے |
یہ ماتم کناں عید کیسے منائے؟ |
یہ ماتم کناں عید کیسے منائے؟ |
معلومات