شام بھی ہو جائے گی یہ دِل نشِیں آئے گا وہ |
آرزوئیں ہو رہی ہیں جاگزیں آئے گا وہ |
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف |
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ |
مُڑ گیا تھا موڑ جو پہلے کبھی اِک موڑ پر |
آخرِش تھک ہار کر مُڑ کر وہیں آئے گا وہ |
مانتا ہوں ایک مُدّت سے رہی تُو پیاس میں |
اب نہِیں رونا ہے چشمِ آبگِیں، آئے گا وہ |
اب تو رکھنا ہی پڑے گا تُجھ پہ پتھر میرے دِل |
کب تلک جُھوٹی تسلّی دُوں، نہِیں آئے گا وہ |
گُلستانِ دل کے سارے رنگ و گُل جِس پر نِثار |
وہ رُخِ تاباں، رُخِ گُل آتشِیں آئے گا وہ |
جا ہے جِس کی جو وہاں کو کھینچ ہی لے گی رشِید |
ٹھوکریں کھا کر، جہاں کا ہے وہیں آئے گا وہ |
رشید حسرتؔ |
معلومات