پوچھتے ہو کہ میں چپ کیوں ہو
تیری باتوں سے اوقاتوں سے
چپ ہوں بس چپ
منصف کے انصاف سے
حاکم کے معیار سے
جاھل کے انکار سے
عابدِ عیار سے
زاھدِ بے کار
عالمِ بیمار سے
قاتل کے اقرار سے،
استاد کے وقار سے
تاجر کے مینار سے
چپ ہوں میں چپ ہوں
فوج کے سالار سے
قوم کے شعار سے
اعلیٰ عہدیدار سے
مفلس کی معصومی سے
جوسمجھتا ہے
درہم و دینار کے بندے ،
بندگانِ خدا ،
کی دستگیری ،کر کے
ساحل پہ پہنچائیں گے
مایوس ہوں چپ ہوں
اقصا کی بربادی سے
کشمیر کی وادی سے
آواز آ رہی ہے
چپ کیوں ہو تم ، اے خداوندانِ علم و سخن
چپ کیوں ہو اے حاکمانِ ملک و ملت
غازیوں کے آلات کی
چپ پر ، میں چپ ہوں
چپ ہوں زمیں کے ،ظلم کو
اپنے گلے سے لگانے پر
لرزیدہ نہ ہونے پر
آسماں کے نہ گرنے پر ،
دریا کے بہنے پر ،
بہتا ہے جو ظلم کی اور
ان تاروں کے جلنے پر
جو ابھی بھی روشن ہیں
جو غم نہیں کرتے
اس زمیں کے تاروں کے بجھنے کا
پھول بھی مسکراتے ہیں
حالاں کہ مرجھا گئی ہیں
کلیاں کشمیر کی
برما کی ، اقصا کی
تھا حسن جن کا پھولوں سے زیادہ
آنا تھا جن پر شبابِ تازہ
میں ان کے جانے پہ چپ ہوں
میں چپ ہوں ، میں چپ ہوں
اس قدر چپ ہوں کہ میں
بولتا بھی نہیں ہوں
بس لکھتا رہتا ہوں
سوچتا رہتا ہو
یہ کہ میں
چپ کیوں ہوں ؟

0
19