میں سر اٹھا کے چلوں اس لیے بنا ہی نہیں |
میں وہ درخت ہوں جس کا کوئی تنا ہی نہیں |
کئی سبب ہیں یہاں پر مری تباہی کے |
مری تباہی میں شامل فقط انا ہی نہیں |
تباہ کرنے پہ آؤں تو میں سکندر ہوں |
تمام عمر مگر دل میں کچھ ٹھنا ہی نہیں |
خوشی دیا ہے وہ جو آندھیوں کی راہ میں ہے |
مگر دکھوں کے مقدر میں یاں فنا ہی نہیں |
میں ریگ زار میں تنہا درخت ہوں شاہدؔ |
نہ مجھ پہ پھل کوئی سایہ مرا گھنا ہی نہیں |
معلومات