میں سر اٹھا کے چلوں اس لیے بنا ہی نہیں
میں وہ درخت ہوں جس کا کوئی تنا ہی نہیں
کئی سبب ہیں یہاں پر مری تباہی کے
مری تباہی میں شامل فقط انا ہی نہیں
تباہ کرنے پہ آؤں تو میں سکندر ہوں
تمام عمر مگر دل میں کچھ ٹھنا ہی نہیں
خوشی دیا ہے وہ جو آندھیوں کی راہ میں ہے
مگر دکھوں کے مقدر میں یاں فنا ہی نہیں
میں ریگ زار میں تنہا درخت ہوں شاہدؔ
نہ مجھ پہ پھل کوئی سایہ مرا گھنا ہی نہیں

27