ماں کی گود اور باپ کا سینہ چاہیے
پھر مجھے وہ دور بچپن کا چاہیے
زیر سایہ امی ابا کے ہی مجھے
نیند راحت کی اجی سو نا چا ہیے
تھک گیا ہوں چلتے چلتے ابا جی سے
اب تو تھوڑی ٹانگیں دبوانا چاہیے
ڈانٹنا اور روٹھنا برا ہے مگر
دل کو اب ڈانٹ اور منا نا چاہیے
اب نجانے دل یہ میرا چاہے ہے کیوں
پھر ابا کی انگلی تھا منا چاہیے
درد نے دھندلا دی ہیں آنکھیں اب مری
تھوڑا رونا اور بہت ہنسنا چاہیے
ہم نے دیکھے ہیں بہت دنیا کے بھی رنگ
اب مجھے پھر چڑیا گھر جانا چاہیے
یہ ظا لم دنیا کما اور پڑھ لی پر اب
ساتھ ابا کے سیر کو جا نا چا ہیے
اب گھٹن سے ہاں سلگتا ہے یہ بدن
گھر کی چھت ہی پر مجھے سونا چاہیے
ہر کھا نا دنیا کا میسر ہے پر مجھے
ہاتھ کا ماں کے بنا کھانا چاہیے
بیٹے دل میرا جوں بہلاتے ہیں مجھے
باپ ماں کو یوں ہی بہلانا چاہیے
کھل کے رویا ہی نہیں ہوں مدت سے میں
سر کے رکھنے کو مجھے سینہ چاہیے
رکھتے ہی سر نیند آ جائے گی مجھے
گودِ ماں ہی میں ہاں سر رکھنا چاہیے
سچ ہے ماضی کا سفر نا ممکن ہی ہے
پھر بھی مجھ کو ماضی میں جانا چاہیے
جن نے دھڑکن دی مرے دل کو یا خدا
انہی کی دھڑکن مجھے سننا چاہیے
یا رب ان پر سایہ ہو تیرے فضل کا
ان کو تیرا بخش ہی دینا چاہیے
جنتوں میں ہی رہیں سب کے والدین
ہاں حسنؔ بس یہ دعا کرنا چاہیے

0
56