چھائی ہوئی ہے غم کی فضا اربعین پر
چلنا ہے سوئے کرب و بلا اربعین پر
آئے ہیں چھٹکے قید سے شبیر کے حرم
زخمی ہیں قلب سہتے رہے ہیں وہ رنج و غم
ماتم کے ساتھ آہ و بکا اربعین پر
ظلم و ستم و رنج و الم اور تیرا غم
زندانِ شام میں ہے سکینہ کا نکلا دم
تربت پہ شہ کی رو کے کہا اربعین پر
اصغر کو یاد کر کے بہت روتی ہے رباب
بیٹھی نہ چھاؤں میں کبھی کہتی ہے یہ جناب
اصغر مرے کہاں ہو کہا اربعین پر
اکبرؑ جواں کی یاد میں ماں کا ہے کیسا حال
نیزے کا جب بھی آتا ہے بیٹا مجھے خیال
اکبرؑ کو ماں نے دی یوں صدا اربعین پر
صائب کی کائنات ہے لبیک یا حسینؑ
اس کی تو بس حیات ہے لبیک یا حسینؑ
ذکرِ حسینؑ کرتا چلا اربعین پر۔

33