میری ہر سانس کو وہ سچ کا اجالا سمجھے |
میرا سقراط مجھے زہر کا پیالہ سمجھے |
میری ماں میں تو کفِ پا بھی نہیں ہوں تیری |
پھر بھی چاہوں تو مجھے چاند ستارا سمجھے |
دل میں اٹھتی ہوئی ان درد بھری ٹیسوں کو |
غیر سمجھا، نہ کبھی کوئی ہمارا سمجھے |
وہ فراست مرا مولا مجھے دیدے تیری |
تیری آنکھوں ترے ابرو کا اشارہ سمجھے |
میں ہوں تیرا تو الف سے مجھے لیکر یے تک |
لازمی ہے تو مجھے سارے کا سارا سمجھے |
ایک بھی لفظ زباں سے نہ کہوں میں، میری |
دل کی ہر بات مرا چاہنے والا سمجھے |
یوں ملا، لوگ ملیں جیساے زمانے والے |
ہم جسے سارے زمانے سے نرالا سمجھے |
ایک تم اس کو حبیب اپنا نہیں مانو ہو |
ایک دنیا ہے اسے صرف تمہارا سمجھے |
معلومات