| گردوں میں مسافت سے تھکتے نہیں ہیں تارے |
| تھک کر زمیں کے اوپر گرتے نہیں ہیں تارے |
| معلوم نہیں ان کو منزل ملے گی کب پر |
| رکھتے ہیں سفر جاری رکتے نہیں ہیں تارے |
| جتنی بھی ہو تاریکی پروا نہیں یہ کرتے |
| ظلمت کدے سے بالکل ڈرتے نہیں ہیں تارے |
| گو دن کے اجالے میں اوجل ہیں نگاہوں سے |
| سورج کی ضیا سے پر جلتے نہیں ہیں تارے |
| لیتے ہیں جنم تازہ اک اور جہاں میں پھر |
| مرکز پہ فدا ہو کر مرتے نہیں ہیں تارے |
معلومات