دیکھا جو میں نے خواب کوئی معتبر کہیں |
آیا نہ اس کا دل سے مگر وہ اثر کہیں |
دل تیرا بھی ملال بجا ہے مگر سنو |
میں کیا کروں کہ ملتا نہیں وہ اگر کہیں |
تڑپے ہے دل وہی، وہی آشوبِ جاں کا حال |
ملتی نہیں قرار کی کوئی خبر کہیں |
ہم بھی عجب ہیں، دل میں جو آئے بیاں کِیا |
تم سے بھی بات کی تو وہی مختصر کہیں |
تم بن مری حیات کا منظر عجیب ہے |
سانسوں میں گھل رہا ہے غموں کا بھنور کہیں |
رکھا ہوا ہے درد کا ہمراہ اک جہاں |
ملتا نہیں ہے زخم پہ مرہم مگر کہیں |
خود اپنے آپ سے بھی کوئی واسطہ نہیں |
دل ہے کہ کر رہا ہے تمہارا سفر کہیں |
یادوں کی دھوپ چھاؤں میں رہتا ہے دل مگن |
ملتا نہیں ہے ترکِ غموں کا اثر کہیں |
ہر اک گماں پہ دل کو یقیں سا ہوا، مگر |
یوں ہو رہا تھا جیسے کوئی ہو بسر کہیں |
لب پر تری ہنسی کا فسوں جب سے آ گیا |
دل کو بھی مل گئی ہے خوشی کی خبر کہیں |
آنکھوں میں چھپ گیا ہے یہ بے نام سا غبار |
دیکھوں تو جیسے اب نہیں اپنا سفر کہیں |
معلومات