دیکھا جو میں نے خواب کوئی معتبر کہیں
آیا نہ اس کا دل سے مگر وہ اثر کہیں
دل تیرا بھی ملال بجا ہے مگر سنو
میں کیا کروں کہ ملتا نہیں وہ اگر کہیں
تڑپے ہے دل وہی، وہی آشوبِ جاں کا حال
ملتی نہیں قرار کی کوئی خبر کہیں
ہم بھی عجب ہیں، دل میں جو آئے بیاں کِیا
تم سے بھی بات کی تو وہی مختصر کہیں
تم بن مری حیات کا منظر عجیب ہے
سانسوں میں گھل رہا ہے غموں کا بھنور کہیں
رکھا ہوا ہے درد کا ہمراہ اک جہاں
ملتا نہیں ہے زخم پہ مرہم مگر کہیں
خود اپنے آپ سے بھی کوئی واسطہ نہیں
دل ہے کہ کر رہا ہے تمہارا سفر کہیں
یادوں کی دھوپ چھاؤں میں رہتا ہے دل مگن
ملتا نہیں ہے ترکِ غموں کا اثر کہیں
ہر اک گماں پہ دل کو یقیں سا ہوا، مگر
یوں ہو رہا تھا جیسے کوئی  ہو  بسر کہیں
لب پر تری ہنسی کا فسوں جب سے آ گیا
دل کو بھی مل گئی ہے خوشی کی خبر کہیں
آنکھوں میں چھپ گیا ہے یہ بے نام سا غبار
دیکھوں تو جیسے اب نہیں اپنا سفر کہیں

52