یہ سانس جو ہوا میں دشوار لگتا ہے
اک بوڑھے پیڑ پر کاری وار لگتا ہے
وہ اور زمانے تھے جب آنکھوں میں تھی حیا
اب ہر تماشا سرِ بازار لگتا ہے
ڈرتا نہیں ہے انساں ویرانوں سے کہ اب
خود آدمی درندوں سے پار لگتا ہے
پردیس میں سہے اس نے غم ہیں کس قدر
صدیوں کا شخص وہ جو بیمار لگتا ہے
یا رب ہو رحم میرے اس ملک پر جہاں
ہر بندہ تیرا خود سے بیزار لگتا ہے

132