جانتا ہوں میں مقدّر کا سکندر تو نہیں |
میرے افکار ارسطو کے برابر تو نہیں |
ہیں بہت موتی تہہِ آب صدف کے اندر |
ہاں مری سوچ کی گہرائی سمندر تو نہیں |
صاف دل رکھتا ہوں پاکیزہ تصوّر ہیں مرے |
دل مرا گرچہ کوئی مسجد و مندر تو نہیں |
ہے بھروسہ جو تری ذات پہ رکھتا ہوں یقیں |
لوٹے جس در سے کوئی خالی ، ترا در تو نہیں |
حوصلہ مجھ کو دیا تُو نے ہے گویائی کا |
عرش تک پہنچے صدا حد کوئی امبر تو نہیں |
جائزہ اپنا کبھی لے کے یہ بتلاؤں گا |
رنگ اس کا ہی مرے خون کے اندر تو نہیں |
مان لیتا ہوں کہے تُو جو ، تسلّی کر کے |
یہ صدا آئی جہاں سے کوئی منبر تو نہیں |
طارقؔ اوروں کی طرف دیکھ کے بھی شکر کرو |
جو ملا تم کو سبھی کو وہ میسّر تو نہیں |
معلومات