اٹھا جس کی طرف میرا قدم تھا |
بہت ہی بے وفا میرا صنم تھا |
کیا ہر پل مجھے اس نے ہی رسوا |
محبت تھی کوئی یا پھر الم تھا |
دیا غیروں نے ہی مجھ کو دلاسا |
ترا مجھ پہ ہمیشہ سے ستم تھا |
تغیر چل رہا تھا دل میں تیرے |
مجھے تیری محبّت کا بھرم تھا |
بھروسہ تھا مجھے جس پر بڑا ہی |
اسی نے ہی کیا اس کو قلم تھا |
نہیں تھی آشنا سے کچھ امیدیں |
کہ غیروں کا ہمیشہ سے کرم تھا |
میں اس کی وصف لکھتا تھا ورق پر |
محبت سے بھرا میرا قلم تھا |
مجھے شکوہ نہیں ہے اس پری سے |
کہ میرے بخت میں دھوکہ رقم تھا |
نکل جاؤ کہا تھا زندگی سے |
وہاں پر ہی ختم بس میرا دم تھا |
تجھے حسانؔ ملتا کچھ یہاں کیا |
مقدر میں ترے بس غم ہی غم تھا |
معلومات