طوفاں کے اٹھ جانے سے گھبرائيں کیوں
موج کے شور مچانے سے گھبرائيں کیوں
ہمت و حوصلہ گر ہو بلند تو خوف ہے کیوں
رنج و مصائب آنے سے گھبرائیں کیوں
جب نظروں سے نظر مل ہی جائے تو پھر
دل کا حال سنانے سے گھبرائيں کیوں
وصل کے لمحے رنجشیں ساری بھلاتے ہیں
یار کو اپنے منانے سے گھبرائيں کیوں
شعبدہ باز تو ناصؔر بہکاتے رہیں گے
حق پر ہیں تو زمانے سے گھبرائيں کیوں

48