بنائے ہیں جو کہکشاں کیسے کیسے
جدا ہر شئے کا سماں کیسے کیسے
ستاروں کی ہے جھلملاہٹ انوکھی
"بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے"
سزاوار تعریف ہے بس خدا کو
رکھا یوم و شب کو رواں کیسے کیسے
نگاہِ بصیرت سے دیکھیں اگر تو
ہے قدرت کی اُس کے نشاں کیسے کیسے
گلستاں، حسیں وادیاں، کھیت و کھلیاں
ہوں منظر سے جلوہ عیاں کیسے کیسے
بناوٹ، چمک، رنگ و بُو، شکل و صورت
نمایاں جھلک درمیاں کیسے کیسے
نہ ہمسر ہے اُس کا یہاں کوئی ناصؔر
ثنا ہو تری جو بیاں کیسے کیسے

0
48