کچھ الگ سا ہے اس سے پیار مجھے |
کوئی اس سا ملا نہ یار مجھے |
وہ گیا جب تو پھر یقیںن ہوا |
اس کی محفل کا تھا خُمار مجھے |
کب ملاقات ہو گی پھر اس سے |
اب تو رہتا ہے انتظار مجھے |
وہ بلائے گا بزم میں اپنی |
اس پہ اتنا ہے اعتبار مجھے |
جو کہے اس کو مان جاتا ہوں |
دل پہ اتنا ہے اختیار مجھے |
چھوڑ کر آ پڑا ہوں اس در پر |
راس آیا نہ روزگار مجھے |
جرم اتنا ہے سچ کہا سچ کو |
لے گئے پھر بھی سوئے دار مجھے |
اپنا چہرہ دِکھا کے مرہم رکھ |
تُو نے دیکھا ہے دلفگار مجھے |
آس ملنے کی دے سُکوں طارق |
یاد رکھتی ہے بے قرار مجھے |
معلومات