دل سے ہر شک نکالئے صاحب
اب نہ آنکھیں نکالئے صاحب
چاند کا دل دھڑک رہا ہوگا
اپنا آنچل سنبھالئے صاحب
اک ذرا سی زبان نے کتنے
دوست دشمن بنا لئے صاحب
اپنی اپنی کمر کو کس رکھیے
ہم نے لنگر اٹھالئے صاحب
کتنے کلیوں سے پھول چہروں کے
وقت نے، رنگ کھالئے صاحب
خون کیوں آنکھ میں اتر آیا
دل سے ہر شک نکالئے صاحب
بعد مدت ملیں کفِ افسوس
وقت اتنا نہ ٹالئے صاحب
ایک ہم کیا، عطا ہوئے لمحے
کس نے کتنے بچالئے صاحب
آپ ہی کچھ کہیں ذرا دل کو
کتنے سانچوں میں ڈھالئے صاحب
کب پلٹ جائیں دن، کسی سر کی
پگڑیاں مت اچھالئے صاحب
بے حجابانہ آ رہے ہیں حبیب
اپنی آنکھیں سنبھالئے صاحب

0
51