منزلِ شوق سے آتے ہوئے اے خوش بختو |
اذنِ اظہار اگر ہو تو میں یہ پوچھوںگا |
چشمِ الطاف ادھر ہو تو میں یہ پوچھوں گا |
جب درِ حضرتِ والا پہ کھڑے تھے تم لوگ |
اپنے ماضی پہ پشیمان ہوئے تھے کہ نہیں |
اپنے صد چاکِ گریبان سیئے تھے کہ نہیں |
ذاتِ اقدس کی قسم ہے یہ بتاؤ مجھ کو |
اپنے بیتے ہوئے لمحات تمہیں یاد رہے |
ایسے عالم میں وہاں شاد یا نہ شاد رہے |
سچ بتا نا کہ وہاں اپنے گلستاں کیلئے |
کتنے پھولوں کی تمناؤں کا اظہار کیا |
اپنی شیرازہِ ہستیِ پریشاں کی قسم |
اپنی تنظیم کے حق میں بھی دعا کی کہ نہیں |
اپنے ماضیِ المناک پہ نمناک ہوئے |
کتنے تاروں کو سجایا سر مژگاں تم نے |
اپنے ٹوٹے ہوئے بازو کی قسم ہے تم کو |
یہ بتاؤ کہ وہاں ایسے بھی کچھ لوگ ملے |
جو کہ آزردہ و پژمردہ و بے خانماں تھے |
ایسے حالات کے مارے ہوئے انساں کی قسم |
اپنے سینے سے انھیں تم نے لگایا کہ نہیں |
اپنی قربت کا کچھ احساس دلایا کہ نہیں |
کیا ستم گردشِ ایام کے پوچھے ان سے |
ان کے بیتے ہوئے لمحات کو پوچھا ہو گا |
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے اشکوں کی قسم |
اپنے دامن میں انھیں جذب کیا تھا تم نے |
انکے مر جھائے ہوئے پھول سے چہروں کی قسم |
ذاتِ اقدس سے بھلا کتنی بہاریں مانگیں |
ان کے ہاتھوں سے جو آئی ہے تباہی ان پر |
اسکے ٹل جانے کے حق میں بھی دعا کی کہ نہیں |
ضبطِ گریہ سے نکلتے ہوئے اشکوں کی قسم |
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے |
آج پھر فکرِ چمن مجھ کو ستاتی ہے حبیب |
آج پھر وقت کو شاید ہے ضرورت میری |
منزلِ شوق سے آتے ہوئے اے خوش بختو |
میرے حق میں بھی دعاؤں میں اثر آجائے |
شجرِ زیست میں کوئی تو ثمر آ جائے |
معلومات