نثّار و دانش ور تھا صحافی ادیب تھا |
لرزہ تھا قصرِ شاہی پہ ایسا خطیب تھا |
کوئی پچھاڑ دے اسے کس کی مجال تھی |
دشمن بھی جس پہ نازاں ہو ایسا رقیب تھا |
دیکھا ہے مَیں نے بارہا شورش کا بانکپن |
عشقِ رسول میں مگر سب سے عجیب تھا |
ہے یاد آج تک سبھی دڑبوں میں چھُپ گئے |
وہ ڈٹ گیا کہ سب سے بڑا خوش نصیب تھا |
حق بات کہنے سے کبھی بھی چوکتا نہ تھا |
خامہ فروشوں کے لئے جرّی رقیب تھا |
جب ٹھن گئی تو پٹخنی دینے میں طاق تھا |
جب معاف کر دیا تو مثالی حبیب تھا |
کل خواب میں وہ مجھ سے یوں گویا ہؤا امید |
سب بھُول گئے مجھ کو کیا اتنا غریب تھا |
معلومات