یاد ہے میں کہتا تھا محبت نہ کرنا
ظالم ہیں لوگ تیرے شہر کے تمام
سیم و زر کے ہیں یہ مارے تمام
رسم و رواجوں کی ہیں اونچی دیواریں
وقت گلی سے گزرتے پاگل کی طرح
ہماری سُنی ان سُنی کرتا نکل جاتا ہے
عمر ڈھلنے لگتی ہے تو سوچ کی منڈیر پر
افری تیری یاد کی سوکھی آکاس بیلیں
پھر دسمبر میں کیوں دراز ہو جاتیں ہیں
زرد رنگ میں بے لباس ہو جاتیں ہیں
سرد شامیں کیوں پھر اداس ہو جاتیں ہیں
یاد کے دیپ جلاتا ہوں ویران حویلی میں
خوش رہو افری شادمانی سے نیا سال مناؤ

0
45