لوگو جینے کے لئے بس اک تلاطم چائیے
راستہ بھی مجھ کو تھوڑا ویسے مبہم چائیے
بےسکونی کی وجہ ہے یہ سکونِ زندگی
خواہشوں کا سوگ ہو مجھکو بھی ماتم چائیے
ایسے لگتا ہے مجھے بے ذائقہ ہے زندگی
مجھ کو جینا ہے تو پھر اک سوزِ پیہم چائیے
ہو چکی ہے اب شناسا جاں مری اس درد سے
جو بڑھا دے اس اذیت کو وہ مرہم چائیے
یہ سکونِ زیست مجھ کو ہے سقوطِ زندگی
مضطرب جو کر سکے وہ غم بھی تاہم چائیے
خودفریبی ہے یہ ساری وعدے قسمیں اور وفا
بے وفا سا ہو جو مجھ کو ایسا جانم چائیے
اے ہمایوں سو گیا کیوں غم کی چادر اوڑھ کر
غم خوشی کا رشتہ پھر بھی کچھ تو باہم چائیے
ہمایوں

0
24