عطار تو میرے مُرشِد ہیں فیض ان کا جگ میں بٹتا ہے
جب دید کریں ان کی ہم تو پھر چین دلوں کو ملتا ہے
یہ ہادی راہِ شریعت کے یہ کامِل پیر طریقت کے
یہ محرم راز حقیقت کے یاں رازِ حقیقت کُھلتا ہے
اَخلاق مِثالی ہے ان کا پیغام غزالی ہے ان کا
اورعشق بِلالی ہے ان کا اک جامِ مَحبَّت مِلتا ہے
ہمّت جراَت اس پر حکمت یوں کرتے ہیں اِصلاحِ اُمَّت
رب کی شامِل اس میں نُصرت انداز تو ان کا یکتا ہے
خلوت ہے جلوت سے بہتر باطن بھی ظاہر سے اطہر
تقویٰ میں سَلَف کے ہیں مظہر دل خوفِ خُدا سے بھرتا ہے
ہے چہرہ ان کا نورانی مُسکان بھی ان کی لاثانی
خلقت ان کی ہے دیوانی اک پھول سُہانا کِھلتا ہے
قسمت جاگی زیرکؔ تیری بن گیا جب سے تو عطاری
فیضِ مرشِد ہر دم جاری کس بات سے اب تُو ڈرتا ہے

0
54