غالب یا داغ کا یہ زمانہ تو ہے نہیں
لڑتے رہیں گے شعر سنانا تو ہے نہیں
تجھ کو بھی دل کی بات بتا نے سے فائدہ
تو نے بھی اس کو جا کے بتانا تو ہے نہیں
قدموں کے آس پاس پڑا رہنے دو ہمیں
تم نے ہمیں گلے سے لگانا تو ہے نہیں
اشعار کا یوں قحط ہی پڑنا تھا شہر میں
خود سیکھ کر کسی کو سکھانا تو ہے نہیں
میں نے لگا دیا ہے الارم کہ روزِ حشر
مجھ کو کسی نے عین جگانا تو ہے نہیں
اب مسکرا کے پیار سے ہی دیکھ لو ہمیں
اس کے سوا اب اور بہانہ تو ہے نہیں
وہ دنیا تھی جہاں مجھے اور کام تھے بہت
یہ حشر ہے میں نے کہیں جانا تو ہے نہیں
اشعار ہیں نہ ہے یہ غزل تجربات ہیں
تنخواہ دار کا یہ فسانہ تو ہے نہیں
نور شیر

93