بابا کے جنازے پہ تھی زینب کی یہ فریاد |
اماں کے بعد گھر بھی تھا تم سے ہی تو آباد |
اک تیغِ جفا نے کیا ہم سب کو ہے برباد |
آنکھیں تو ذرا کھولو، کرو پھر کوئی ارشاد |
اکیسویں رمضان میں سرخی جو چھائی ہے |
حیدر کے جنازے پر زینب جو آئی ہے |
لپٹی ہوئی ہے بابا سے ہئے زینبِ دلگیر |
یوں چھوڑ کہ نہ جاؤ ہمیں خالقِ تصویر |
تم سے ہی تو قائم ہے ہماری بھلا تقدیر |
دَھانی ردا میں لپٹی ہوئی ہے میری جاگیر |
اماں کے بعد تم سے تو قائم خدائی ہے |
حیدر کے جنازے پر زینب جو آئی ہے |
اک بار کفن کو میرے بھیا تو ہٹا دو |
دل بھر کےمجھے بابا سے ملنے تو ذرا دو |
چہرہ بھی مجھے بابا کا پھر سے جو دکھا دو |
جلدی ہوئی کس بات کی اک بار ملا دو |
رخصت جو ابھی ہوگئے لمبی جدائی ہے |
حیدر کے جنازے پر زینب جو آئی ہے |
بنتِ نبی کے گھر میں بپا تھا جو شوروشین |
تابوت کو اٹھاتے ہیں جوں ہی حسن حسین |
سینہ زنی سے ہمُکو بھی ملتا نہیں ہے چین |
ہائے علی کا تھا ہر ایک لب پے یہی بین |
قتلِ علی سے تم کو ملی کیا بھلائی ہے |
حیدر کے جنازے پر زینب جو آئی ہے |
گریہ علی کی بیٹی کا کیا لکھوں میں صائب |
زہرا کے گلستان پے جو ٹوٹے مصائب |
بدلہ بھی ابھی لے گا خدا کا جو ہے نائب |
غیبت میں ہے جو مولا میرا عرصے سے غائب |
باطل کو ختم کرنے کی جو قسم کھائی ہے |
حیدر کے جنازے پر زینب جو آئی ہے۔ |
معلومات