روک لیتا ہوں زباں کو دل نہ دُکھ جائے کہیں |
جس طرح کا مَیں مکیں ہوں وہ بھی ایسے ہی مکیں |
عمر ہے باسٹھ برس کی لیکن اپنے آپ کو |
پیش کرتی ہیں کسی محفل کی شمعِ نازنیں |
بات کرنے پر جو آ جائیں تو رُکنے کے نہیں |
کتنا ہی شور و شغب کرتے رہیں گو سامعیں |
اُن کا اندازِ تکلّم دیکھ کر حیران ہوں |
آج وہ جو سیخ پا ہیں کل تلک تھے ہم نشیں |
چھوڑ کر رنگیں محل پگڈنڈیوں پر آؤ جب |
منتظر ہے راستوں میں اک فقیرِ رہ نشیں |
کس قدر بُعد و تفاوت ہے امید اس دَور میں |
ایک چھت اوپر ہے گر تو نیچے بھی اک ہی زمیں |
بی۳ |
معلومات