| تیری پروا وہ بھلا کرتا ہی کیوں | 
| تُو اسے اتنا میسّر تھا ہی کیوں | 
| پھرنا ہی تھا درمیاں آ کے اسے | 
| تو صنم گر نا خدا ہوتا ہی کیوں | 
| شکوہ ہے اب ، بے وفا نکلا صنم | 
| تُو محبت وادی میں کودا ہی کیوں | 
| یاں، صنم کی تو روایت ہے ستم | 
| تو وہ مجھ پر ، مہرباں ہوتا ہی کیوں | 
| تھا پتا گر وہ سنے گا ہی نہیں | 
| تو صنم کے در پہ ہو آیا ہی کیوں | 
| تیری ہستی میں الم تھے کم بھلا | 
| تُو محبت میں مگر الجھا ہی کیوں | 
| بن گیا ہے اک تماشہ میرا دل | 
| بے وفا پر دل لٹایا تھا ہی کیوں | 
| جو یقیں تھا ہے خدا حاجت روا | 
| بت کدے پر ، سر جھکا بیٹھا ہی کیوں | 
| (زبیرعلی) | 
 (1).png) 
    
معلومات