شب بھر میں ہی لغزشیں ساری بھول گیا میں |
کیسے آوارہ بانہوں میں جھول گیا میں |
تھا رخصت دے چکا، مَشقِ ستم سے آخر |
حسبِ توقع پھر خرقِ مَعمُول گیا میں |
کچھ نہ رکھا تھا پاس فَروتنی کا مری اس نے |
محفلِ ناز میں تو ہر چند فضول گیا میں |
عشق پرستی سے تھا وہ تِہی داماں ہمیشہ |
جاتے جاتے فَردِ وفا کہ قبول گیا میں |
نفریں زدہ چلتی تھی بادِ سموم تو پھر کیا |
حیراں ہیں مَسموم گیا نہ ملول گیا میں! |
کیسے اترتے ہیں وہ لشکر فکر و نظر کے |
دیکھنے مِؔہر کو پھر سے وقتِ نزول گیا میں |
-------٭٭٭٭-------- |
معلومات