مثلِ شبنم جو تری آنکھ بھری اچھی نہیں |
دل میں پوشیدہ تری کم _سَخَنِی اچھی نہیں |
تیرے الفاظ میں گر درد چھپا ہے تو کہہ |
یوں اکیلے میں بھی شِیرِیں _سُخَنی اچھی نہیں |
شعلہ بننے کی تمنا ہے مگر سوچ ذرا |
حالتِ خوف میں اَفْروخْتَگی اچھی نہیں |
دل کو دھڑکن میں چھپانے کا ہنر آتا ہے |
پر یہ چہرے پہ یوں عریاں بے بسی اچھی نہیں |
میرے جذبات پہ اک نقش ترا باقی ہے |
میرے زخموں پہ تمہاری یہ ہنسی اچھی نہیں |
دل کے آئینے میں دیکھی تھی جو تصویر تری |
توڑ ڈالی ہے کہ آئینہ گری اچھی نہیں |
تجھ سے جینے کی طلب تھی، یہ سکوں بھی نہ ملا |
زندگی بھر کی یہ آمیخْتَگی اچھی نہیں |
دیکھ سکتا ہوں تجھے دور سے لیکن جاناں |
فاصلہ جب ہو زیادہ تو خوشی اچھی نہیں |
زخم تو وقت کے مرہم سے ہی بھرتے ہیں مگر |
وقت بے وقت کی یہ نوحہ گری اچھی نہیں |
تیرے آنے سے ہے آغوشِ چمن مہکی ہوئی |
تجھ کو پتھر کہیں، یہ سادگی بھی اچھی نہیں |
جو چپ ہے تو یہ عالم بھی اُداسی کا ہے |
خامشی سے تری کوتہ _نَظَرِی اچھی نہیں |
ہم نے چاہا تھا کہ دل کی ہو حقیقت عیاں |
پر تری بات میں یہ بے ادبی اچھی نہیں |
معلومات