| مری حیات کو برکت ملی ہے نعتوں سے |
| عرض نمودہ : محمد حسین مشاہد رضوی |
| مری حیات کو برکت ملی ہے نعتوں سے |
| مرے خیال کو وسعت ملی ہے نعتوں سے |
| ملی ہے قلب کو تسکین حمد کے باعث |
| تو میری روح کو لذت ملی ہے نعتوں سے |
| خدا کا فضل ہے لوگو مرے گھرانے کو |
| مدینے والے کی الفت ملی ہے نعتوں سے |
| میں ناز کیوں نہ کروں اس ہنر کی دولت پر |
| شعور و فکر کو ندرت ملی ہے نعتوں سے |
| کوئی بھی مجھ کو نہیں جانتا تھا عالم میں |
| مجھے جہان میں شہرت ملی ہے نعتوں سے |
| میں مشت خاک کہ بے مایہ ہے مری ہستی |
| مگر نصیب سے عزت ملی ہے نعتوں سے |
| کہاں تھی فکر میں حسن و جمال کی تابش |
| تخیلات کو طلعت ملی ہے نعتوں سے |
| سلیقہ کچھ نہ تھا الفاظ کو برتنے کا |
| قلم کو حُسن کی دولت ملی ہے نعتوں سے |
| مجھے نصیب ہیں آسائشیں جہاں بھر کی |
| مرے مزاج کو راحت ملی ہے نعتوں سے |
| علاجِ درد و الم ہے نبی کا ذکرِ حسیں |
| شکستہ قلب کو فرحت ملی ہے نعتوں سے |
| مشاہد اس سے ہی رزقِ سخن ملا مجھ کو |
| تو میرے خامے کو نزہت ملی ہے نعتوں سے |
معلومات