ہے عاجز یہاں جس سے سب کی زباں |
کرے گا قلم کیسے میرا بیاں |
ہے خواہش کروں یوں ثنائے خدا |
کہ بن جائے ہر بات بگڑی وہاں |
مکیں لا مکاں میں تری ذات ہے |
گماں کا گزر بھی نہیں ہے جہاں |
یہ تیرے نشاں بکھرے ہیں جا بجا |
نظر سے بظاہر تو سب کی نہاں |
عبادت کے لائق ہے تو ہی خدا |
زباں رکھتے گر تو یہ کہتے بتاں |
خزاں تیری قدرت کو آتی نہیں |
ہے بے بال و پر کفر پھرتا یہاں |
ہے تیرا کرم اب بھی ہم پر خدا |
برس کے گزرتا ہے ابرِ رواں |
گزرتی ہے بچ کے یہ گردش بھی جب |
ترا نام ہوتا ہے ورد زباں |
اسد تیرا تو ذکر ہی کچھ نہیں |
ہے عاجز یہاں تو سبھی کی زباں |
معلومات