یہ زندگی سمندر |
چھوٹی سی ایک ناؤ |
ناؤ کا ناخدا میں |
لہروں کے ہیں تھپیڑے |
پانی بھی کم بچا ہے |
اور بادبان اس کا |
جو کب کا پھٹ چکا ہے |
منزل بھی بے وفا ہے |
کالی بہت گھٹا ہے |
ساحل جو اب ملا تو |
مجھ کو نہیں ہے جینا |
بے نام مقبروں کا |
میں اب نہیں ہوں قائل |
مٹی سے میرا رشتہ |
تھا سرسری ہمیشہ |
مجھ کو نہ راس آئی |
میں کب رہا زمیں پر |
زندہ تھا پانیوں پر |
اب مر کے پانیوں میں |
تھا ابتدا میں پانی |
ہے انتہا میں پانی |
جلدی سے نام اس کا |
اپنے لہو سے لکھ کر |
بوتل میں قید کر کے |
اب میں نے رکھ لیا ہے |
امید بس یہی ہے |
یہ آخری دعا ہے |
وہ نام جو لکھا ہے |
ساحل پہ کاش پہنچے |
معلومات