یہ زندگی سمندر
چھوٹی سی ایک ناؤ
ناؤ کا ناخدا میں
لہروں کے ہیں تھپیڑے
پانی بھی کم بچا ہے
اور بادبان اس کا
جو کب کا پھٹ چکا ہے
منزل بھی بے وفا ہے
کالی بہت گھٹا ہے
ساحل جو اب ملا تو
مجھ کو نہیں ہے جینا
بے نام مقبروں کا
میں اب نہیں ہوں قائل
مٹی سے میرا رشتہ
تھا سرسری ہمیشہ
مجھ کو نہ راس آئی
میں کب رہا زمیں پر
زندہ تھا پانیوں پر
اب مر کے پانیوں میں
تھا ابتدا میں پانی
ہے انتہا میں پانی
جلدی سے نام اس کا
اپنے لہو سے لکھ کر
بوتل میں قید کر کے
اب میں نے رکھ لیا ہے
امید بس یہی ہے
یہ آخری دعا ہے
وہ نام جو لکھا ہے
ساحل پہ کاش پہنچے

0
36