فرق بینائیوں سے لگتا ہے
زخم رُسوائیوں سے لگتا ہے
شہر میں لوگ سہمے رہتے ہیں
ڈر جو تنہائیوں سے لگتا ہے
جانے کب پھینک دے کنویں میں کون
خوف سا بھائیوں سے لگتا ہے
ڈھل گیا وقت کا بھی سورج اب
دیکھ ، پرچھائیوں سے ، لگتا ہے
آنے والا ہے کوئی گلشن میں
چمن آرائیوں سے لگتا ہے
جیسے منزل قریب آئی ہے
اتنی چڑہا ئیوں سے لگتا ہے
تہہ میں دریا بھی بہہ رہا ہو گا
دور تک ، کھائیوں سے لگتا ہے
مر مٹے دیکھ کر وفا یہ دل
کب یہ ہرجائیوں سے لگتا ہے
کوئی دل میں اگر اتر جائے
پاؤں گہرائیوں سے لگتا ہے
عشق آیا نہیں ہے راس جسے
تلخ ، دانائیوں سے لگتا ہے
کوئی بارات لے کے آیا ہے
دُور ، شہنائیوں سے لگتا ہے
طارقؔ اُس کی نظر پڑی ہو گی
تیری رعنائیوں سے لگتا ہے

0
6