تمہاری آواز میرے کانوں کی جستجو ہے
رہو تم آنکھوں میں روز میری یہ آرزو ہے
تمہیں خیالوں میں سوچ لینا ہی ہے عبادت
تمہیں محبت سے دیکھ لینا مرا وضو ہے
میں اس کو تلقین کررہا تھا کہ خوش رہو تم
وہ کہہ رہا تھا تمام غم کی وجہ ہی تو ہے
میں جس کے ہونٹوں کے اک تبسم پہ جان دیتا
وہ میری آنکھوں سے اب بہاتا مگر لہو ہے
ہے میری حالت کو غیر حاضر میں جان لیتا
وہ مجھ کو لگتا خدا کی صورت ہی ہوبہو ہے
وفا کے اظہار کا بہت تھا خمار مجھ کو
مہر بہ لب ہوں جو آج میرے وہ روبرو ہے
امیر لوگوں میں نام اس کا لکھا ہوا ہے
وہ تجھ کو چاہے تو کیسے چاہے غریب تو ہے
میں اس کے جیون میں ایک پاگل سا آگیا ہوں
وہ مجھ کو مجنوں سمجھ کے ہی محو گفتگو ہے
ہہت حفاظت سے رکھ رہا ہوں سبب یہی ہے
کسی کی بیٹی بہن ہو خالدؔ کی آبرو ہے

87