حوصلہ دن کا چادر تھی وہ رات کی
اس سے رشتہ بھی کیا ماؤں کے جیسی تھی
ہر کوئی اس پہ دیکھے بنا مرتا تھا
خوبصورت بھی افواہوں کے جیسی تھی
میر کے دل پہ اتری سخن بن کے وہ
داغ جی کی حسیں غزلوں کے جیسی تھی
وہ کڑی دھوپ میں چھاؤں کے جیسی تھی
شہر کی لڑکی بھی گاؤں کے جیسی تھی
خاندانی وہ عالی نسب لڑکی تھی
سیدہ طاہرہ ولیوں کے جیسی تھی
غم زدہ ہیں مرے دوست احباب سب
شیر وہ لڑکی تو اپنوں کے جیسی تھی
نور شیر

0
91