یہ مسکن ہمارا، یہ عالم ہمارا |
کہ وسعت کو جس کی، نہیں ہے کوئی استعارہ |
یہ بنجر ہے سارا |
مگر پھر بھی دامِ خرد سے تو یہ ماسوا ہے |
کئی کہکشاوں کا مدفن یہاں ہے |
کئی کونے پھر بھی ہیں ایسے۔۔۔۔ |
جہاں پر کسی روشنی کی رمق تک نہیں ہے |
کسی ذرّے کی سوچ کی بھی چمک تک نہیں ہے |
☆☆ |
مرے دل کا سایہ گو اس پر پڑا ہے؟ |
یا میرا ہی دل ایسا اک آئینہ ہے۔۔۔ |
جو سب تیرگی منعکس کر رہا ہے! |
مرے دل میں بھی ( کہکشاوں کی مانند) ان آہوں کے گوہر ہیں پنہاں |
انہیں میں اسی شہرِ مدفون میں، پچھلی آہوں کے سرہانے، دفنا گیا ہوں |
☆☆ |
بس اک یہ محبت! |
جو سب کہکشاوں کے مدفون قریوں میں ہے ارضِ زندہ کی مانند! |
کہ اس کے سوا اور کہیں زندگی کی علامت نہیں ہے |
یہ اک نیلا نقطہ، یونہی زندگی کا سہارا، کہ جیسے۔۔۔ |
کسی اجنبی بزم میں اک نگہ خوبرو کی |
یا پھر ساز کا ایسا جھونکا جو کانوں میں رس گھولتا ہو |
یا پھر صبح سورج کے اٹھنے کا منظر! |
☆☆ |
جہانِ بے سرحد میں ہوں ایک نقطے کی مانند |
میں ہوں وقت کے دشت میں ایک ذرّے کی مانند |
بے ساحل سمندر میں اک تیرنے والے قطرے کی مانند |
میں کچھ بھی نہیں ہوں!!! |
بھلا میری وقعت ہی کیا ہے؟ |
ہیں جیون کے سب روز و شب وقت لہروں میں جکڑے |
صدا اپنی، عالم کے شورِ ازل مِیں (دیوانوں کی مانند) مَیں ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں |
سبھی ہم ہیں، گو اصل میں، ٹہنی پر رینگنے والے اک لاروے کے ہی جیسے |
ہو ٹہنی ہی بس جس کی دنیا۔۔۔ |
اسی پر یہ ہر ایک پل رینگتا ہو |
یہ ذرّے میں اتنا مگن ہو گیا ہے کہ خود بھی اک ذرّہ بنا ہے |
پروں سے یہ (ادراک کے) جونہی تتلی بنے گا |
نئی رنگ و خوشبو کی دنیا کو تب دیکھ لے گا |
☆☆ |
"پس اک مشت مٹی |
میں شامل ہیں دنیائیں لاکھوں |
پس اک پل میں بھی ہیں |
کئی صدیاں ٹہریں"1 |
رگوں میں ہے پھولوں کے پنہاں ازل کی کہانی |
مرے جسم، مجھ کو بنانے کی خاطر، مٹے ہونگے خورشید کتنے؟ |
اور ان سب کے کندن، مرا جسم و پیکر ہے ڈھالے! |
گر اک لمحہ ہوں میں۔۔۔۔ |
پر اک داستاں ہوں ازل اور ابد کی |
گو میں ایک ذرّہ ہوں پھر بھی۔۔۔ |
ازل کا سلوک و سفر طے کیا ہے |
سبھی کہکشاوں، ستاروں کی میں ارتقا ہوں! |
☆☆ |
1۔ ان چار لائنوں کا خیال ولیم بلیک کے اشعار کے ماخوذ ہے |
ــــ |
معلومات