پُکارتا اُسی کو ہوں، میں سوز سے گُداز سے
نَوازتا مُجھی کو ہے، وہ عِشق سے نِیاز سے
تِرے خَراب حال کو، تِرا خُمار چاہیے
نہیں ہے اِس کو کوئی کام، غیر سے مَجاز سے
فَنا ہُوا جو یار میں، وہ ہوش سے گُزر گیا
لے کام ہوش مَند ہی، وہ صَبر سے نَماز سے
تِرا طَریق ساقِیا، نِکھارتا ہے عِشق کو
اُبھارتا ہے رِند کو، جو پَست سے فَراز سے
سَدا رَہیں اے ساقِیا، تِری یہی نَوازشیں
پِلا مُجھے تو لا کے مَے، وہ طُور سے حجاز سے
شرابِ عِشق و معرِفت، تِرے نصیب میں کہاں
اے زاہِدا تُو دُور ہے، ہاں سَاز سے طَراز سے
تُو حُسنِ بے نیاز ہے، کہ جِس کو خُود پہ ناز ہے
میں ہوں غُلامِ حُسنِ ناز، عجز سے نِیاز سے

0
30