فنائے ہستیٔ انساں کب اختتامِ حیات
وہاں پہ منتظر اک اور ہے نظامِ حیات
کہاں گئی ہے پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
ابھی تھی صبح ابھی ہو گئی ہے شامِ حیات
تمام عمر گزاری تو جی نہیں پائے
نہ کر سکے ہمیں کرنا تھا اہتمامِ حیات
شعور جن کو نہیں قدر وہ نہیں کرتے
کرے گا کون شناسائے احترامِ حیات
جوانی لے گئی ہے ساتھ ساری سرمستی
نیا پلائے کوئی لا کے اب تو جامِ حیات
جِلا کے امّتِ مرحومہ کو جو زندہ کرے
تلاش ہے کوئی لائے نیا پیامِ حیات

0
29