رہتا ہوں خوش کبھی تو کبھی اضطراب میں
کچھ دائمی نہیں ہے جہانِ خراب میں
وہ پھول مجھ کو باغ ہی میں اچھا لگتا تھا
لوگوں نے جس کو تھوڑ کہ رکھا کتاب میں
تعمیر کر رہا ہوں تخیل میں وہ جہاں
نام و نشاں نہ جس کا ہو ممکن کے باب میں
اک عشق ہی ہوا، سو ہوا کچھ نہ پھر کبھی
ہوتا وگرنہ کیا نہیں عمرِ شباب میں
وہ آئے میرے پاس مرا حال پوچھنے
اک خواب ہو کہ جیسا کسی اور خواب میں
مانا کہ عِزّ و ناز میں کچھ کم نہیں ہوں میں
ججتا ہے پھر بھی اُن کو بگڑنا عتاب میں
پوچھے جو کوئی مجھ سے کہ آشفتہ سر ہو کیوں
تم ہی کہو کہ شاہ کہیں کیا جواب میں

0
3