میں زخم کی مثال اور ہوں درد کی حکایت
پھر بھی میں ہنس رہا ہوں یہ ہے مری کرامت
لاکھوں چمن جلے تب وہ خوب ہنس رہے تھے
جب بات خود پہ آئی کرنے لگے ہیں آفت
کھودا پہاڑ میں نے بھی عشق میں قسم سے
اب چوہیا ہے نکلی کس سے کروں شکایت
خاموش اور تماشائی کیوں بنے ہو عاثر
یہ بز دلی ہے تیری مت کہہ اسے شرافت

0
10