عہدہ، کرسی بھی بچائی نہ گئی
جشن کی ریلی سجائی نہ گئی
سرد سارے جو پٹاخہ ہوگئے
چاہ کر جیت منائی نہ گئی
طیش گنتی کے طریقہ پہ رہا
ہارنے سے بھی ڈِھٹائی نہ گئی
دھاک بھی اپنی جمانے کے لئے
منتَری کی جو لڑائی نہ گئی
مسئلے بڑھتے گئے خوب مگر
ان سے آواز اٹھائی نہ گئی
لوگ آپس میں الجھتے رہیں پر
آگ نفرت کی بجھائی نہ گئی
وعدے ناصؔر کبھی پورے نہ ہوئے
بہتری کچھ بھی کرائی نہ گئی

0
60