ظالم کا ظلم ہم سے سُنایا نہ جائے گا
قصہ یہ غم کا ہم سے بُھلایا نہ جائے گا
بنتِ حوا نے کُچلے ہیں بنتِ حوا کے خواب
سپنوں کی شمع کو یوں بُجھایا نہ جائے گا
چکی میں ظلم کی تو فقط پستے ہیں غریب
زخمِ جگر کو اُن کے دکھایا نہ جائے گا
دولت خرید لیتی ہے دنیا کا ہر نظام
انصاف بھی انھیں تو دِلایا نہ جائے گا
اہلِ سِتَم کا کوئی جہاں میں ہے کارساز
اہلِ سِتَم کو یوں تو مٹایا نہ جائے گا
رب ڈھیل دے رہا ہے تمھیں باز آؤ تم
رب کی پکڑ سے تم کو بچایا نہ جائے گا
زیرکؔ کرے گا عدل خُدا ہر کسی کے ساتھ
اُس روز حق کو ہم سے چُھپایا نہ جائے گا

0
18