ہر گھڑی مجھ کو یہی اک وہم دامن گیر ہے
یہ جہاں اس کا ہے جس کے خواب کی تعبیر ہے
چند سِکّوں کے عوض کیوں بیچ ڈالا وہ بدن
جو کبھی شوہر کا تھا اب غیر کی جاگیر ہے
خال کے تِل سے من و تُو کا تصوّرمِٹ گیا
یہ ہے واحد تیرگی جو سب کو ہی اکسیر ہے
خُلد سے دھکّے ملے تو ایک ویرانے میں تھا
نا کوئی دھیلا نہ پیسہ نا کوئی تدبیر ہے
خیر و شر کے راستوں سے بے خبر چلتا رہا
شیخ فرماتے ہیں تیرے پاؤں کی زنجیر ہے
مَیں یہی سمجھا تھا تیرے جسم میں اک دل بھی ہے
کیا خبر تھی یہ تو میری سوچ کی تقصیر ہے
شیخ کو غُصّہ ہے میرے جُرّاتِ اظہار پر
کیا مقدّر کا گلہ کرنا کوئی تکفیر ہے
انتہائے جبر و جَور و ظلم میں گزری حیات
جنّتِ ارضی ہوں میرا نام ہی کشمیر ہے
ان کی زلفیں ان کی آنکھیں ان کے عشوے ان کے ناز
عشق کی ہیں وارداتیں حُسن کی تفسیر ہے
عالمِ برزخ میں ہو امید شاید ممکنات
کوئی آ کے کہہ دے تیرے خواب کی تعبیر ہے
بی۳

0
87