اپنے الفاظ سمجھ ان کو معانی دے دے
کوئی بچوں کو سنانے کو کہانی دے دے
مجھ کو ماضی کے سہارے ابھی کچھ جینا ہے
پاس رکھنے کو کوئی یاد پرانی دے دے
حافظہ میرا ہے ساتھی مری تنہائی کا
جب بھی چلتا ہے قلم اس کو روانی دے دے
سوچتا رہتا ہوں جھانکوں جو کبھی ماضی میں
وقت گزری ہوئی اک شام سہانی دے دے
کب تلک کرتا رہوں گا میں سفر خشکی کا
منتظر ناؤ ہے دریاؤں کو پانی دے دے
اس نئے دور میں آگے مجھے بڑھنا ہو گا
وہی افکار مری سوچ پرانی دے دے
اتنی کمزور محبّت تو نہیں یہ کہہ دوں
میرا دل اب مجھے واپس مرے جانی دے دے
رنگ و خوشبو سے مجھے مست رکھے دن کو گلاب
کیسے بھولوں جو مہک رات کی رانی دے دے
طارِق امّید نہ رکھنے کو سمجھنا کوئی
ہاتھ میں جیسے بڑھاپے کے جوانی دے دے

0
8