اپنے الفاظ سمجھ ان کو معانی دے دے |
کوئی بچوں کو سنانے کو کہانی دے دے |
مجھ کو ماضی کے سہارے ابھی کچھ جینا ہے |
پاس رکھنے کو کوئی یاد پرانی دے دے |
حافظہ میرا ہے ساتھی مری تنہائی کا |
جب بھی چلتا ہے قلم اس کو روانی دے دے |
سوچتا رہتا ہوں جھانکوں جو کبھی ماضی میں |
وقت گزری ہوئی اک شام سہانی دے دے |
کب تلک کرتا رہوں گا میں سفر خشکی کا |
منتظر ناؤ ہے دریاؤں کو پانی دے دے |
اس نئے دور میں آگے مجھے بڑھنا ہو گا |
وہی افکار مری سوچ پرانی دے دے |
اتنی کمزور محبّت تو نہیں یہ کہہ دوں |
میرا دل اب مجھے واپس مرے جانی دے دے |
رنگ و خوشبو سے مجھے مست رکھے دن کو گلاب |
کیسے بھولوں جو مہک رات کی رانی دے دے |
طارِق امّید نہ رکھنے کو سمجھنا کوئی |
ہاتھ میں جیسے بڑھاپے کے جوانی دے دے |
معلومات