کس کس کو ہم بتائیں کیسی چبھن رہی ہے
ہر دن تماشہ سہتے کتنی گھٹن رہی ہے
انسان کی جبلت ہی مختلف بنی ہے
فطرت انوکھی ہی لیکن معترف بنی ہے
ممنوعہ اک شجر کے پھل کی کشش ہوئی تھی
شیطان سے بہک کر دلمیں خلش ہوئی تھی
داتا سخی ہے، در ہر دم رہتا ہے کھلا بھی
گر عاجزی رہے تو سن لیتا ہے دعا بھی
کرتا معاف تو کر لیں غلطیاں بہت ہی
نادان پھر بھگتنا ہیں سختیاں بہت ہی
امید و خوف، ایماں کی پہچاں جو ہے ناصر
مظبوط بھی بنا لیں، محنت پہ جو ہے مضمر

0
58