فرس کی زین سے دیکھو اتر گیا غازی
لبِ فرات وہ ہائے بکھر گیا غازی
دعائے فاطمہ زہرا سے تھا نزول ہوا
پیاس اُس کی بجھاتے گزر گیا غازی
صدا تو آئی کہ مولا گرز لگا ہے مجھے
وہ تیر آنکھ میں کھا کے ہے مر گیا غازی
پَمال ایسے کیا ہے جری کو فوجوں نے
حسین پوچھ رہے ہیں کدھر گیا غازی
فقط یہ مشکِ سکینہ نہیں یہ کعبہ ہے
اِسے بناتے بناتے بکھر گیا غازی
نہیں ہے پانی یہ سانسیں ہیں مولا غازی کی
انہی کو مشک میں بھرتے گزر گیا غازی
ہیں جب سے مس کیے بازو علم سے یہ شفقت
مِرے بھی بازو یدِ بیضا کر گیا غازی

436