آ نظر مقابل ملا کبھی |
مجھ کو میری وقعت دِکھا کبھی |
دیکھ سب شکستہ عمارتیں |
کیا تجھے سبق کچھ مِلا کبھی |
پارچے مکمل ہیں نقشہ کے |
گر سبھی جگہ پر بِٹھا کبھی |
درد پھر گداگر کا جانے گا |
تو بھی دستِ سائل اُٹھا کبھی |
کیسے ریگِ ساحل سے بنتا گھر |
وہ گھروندے خود سے بنا کبھی |
انتظار کی قدر ہو تجھے |
ہاتھوں کو دے رنگِ حنا کبھی |
ہاتھوں میں ہوں پتھر کے سب صنم |
آبگینہِ دل سجا کبھی |
ہو مسافرِ واپسیں کوئی |
ہاتھ وقتِ رُخصت ہلا کبھی |
پھر خِزاں گَزیدوں کو تُو جِلا |
اپنا رُخِ انور دکھا کبھی |
چاہتا ہوں آغوش تیری میں |
اپنی بانھوں میں تو سلا کبھی |
مِؔہر تمہیں آئیں کہیں نظر |
پردہِ انا تو ہٹا کبھی |
---------٭٭٭---------- |
معلومات