لاکھوں اذیتیں ہو مگر چشم تر نہ ہو |
تم کو ہمارے حال کی ہرگز خبر نہ ہو |
میری نہیں بسات ترا سامنا کروں |
دنیا حریف ہو، تُو مخالف مگر نہ ہو |
لو ہجر کٹ گیا ہوا آغاز وصل کا |
ڈر ہے زمانِ وصل کہیں مختصر نہ ہو |
بن جاؤں تیرے عشق میں مجنوں قبول ہے |
بھٹکوں میں دربدر کہیں ایسا مگر نہ ہو |
منزل ہی کیا وہ جس پہ تمہاری کمی رہے |
رستہ ہی کیا وہ جس پہ تمہارا گزر نہ ہو |
ماہر ہوں میں بھی دیکھ لو اپنے فنون میں |
دیدار جب کروں میں تو ان کو خبر نہ ہو |
حسانؔ جس بھی شب کو وہ ہم سے ملے یہاں |
اتنی طویل شب ہو کہ پھر سے سحر نہ ہو |
معلومات