نظر اس کرم کی جدھر جاتی ہے
بڑی خیر لے کر ادھر جاتی ہے
فروزاں ہے قسمت اسی کی سدا
جسے مصطفیٰ سے ظفر جاتی ہے
گراں کامرانی اسی سے ملی
جو بگڑی ہے قسمت سنور جاتی ہے
درودوں سے تر ہے رکھی گر زباں
یہ آلودگی پھر بکھر جاتی ہے
اگر فکرِ محشر ڈبوتی ہے ناؤ
کرم سے نبیؐ کے ابھر جاتی ہے
بنا نامِ نامی جو وردِ زباں
یہ ہستی مسرت سے بھر جاتی ہے
اے محمود بطحا سے جو لہر ہے
اسی سے دہر میں سحر جاتی ہے

34