| آئینے کے سامنے گر بھول کے بھی آؤ گے | 
| اپنے جیسا آدمی اپنے مقابل پاؤ گے | 
| گزرے لمحوں کی طرح میں لوٹ کر نا آؤں گا | 
| جانتا ہوں اب مری جاں تم بہت پچھتاؤ گے | 
| ہے ہمیں معلوم یہ تم دیر کر دو گے بہت | 
| یہ بھی لازم ہے مگر تم لوٹ کے آ جاؤ گے | 
| درد کی سوغات اکثر بھیجتے رہتے ہو تم | 
| چاہنے والوں پہ بس یہ ہی کرم فرماؤ گے | 
| کرتا نا اقبال جرمِ عاشقی کا مظہریؔ | 
| کب مجھے معلوم تھا تم یہ بھی نا سن پاؤ گے | 
 
    
معلومات